Mchoudhary

Add To collaction

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری( کمپلیٹ ناول)

لاسٹ قسط 

***************
وہ تھکے ہوئے قدموں سے ہسپتال آیا تھا۔۔ اپنی جان سے پیاری دوست یا پھر ایک طرفہ محبّت کہہ لیں وہ حد درجے پریشان تھا دل تھا کی ڈوبتا ہی جا رہا تھا۔۔ وہ دروازے کے اُس پار لیٹے وجود کو دیکھ سکتا تھا۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا دروازے کے پاس آیا اور مائشا کو دیکھنے لگا اسکو دیکھتے ہی کئی پل اُسکے سامنے ایک یاد بن کر لہرائے تھے۔۔ وہ دو مہینے پیچھے چلا گیا تھا۔۔۔ " ذیشان !! دیکھو تو یہ کتنا پیارا ہے..؟ مائشا نے اسکو آواز دی وہ جو ابھی ابھی باہر سے آ رہا تھا مائشا کی آواز پر لان کے جانب پلٹ کر دیکھا اُسنے، سامنے مائشا کو دیکھ کر اُسکے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی تھی۔۔۔ وہ چلتا ہوا اُس تک آیا تھا۔۔۔" کیا خوبصورت ہے؟؟" موسم !! ہاں وہ تو ہے " لیکن یہ پہلی بار تو نہیں ہو رہا جو تُم اتنا خوش ہو رہی ہو.. اُسنے ہنستے ہوئے مائشا سے کہا تھا۔۔۔ "جی یہ خوشی کی ہی بات ہے ، اللّٰہ تعالیٰ نے اتنا خوبصورت موسم صرف اپنے بندے کے لئے کیا ہے بھئی میں تو بہت خوش ہوں وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔کوئی اُسکے چہرے سے اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ لڑکی اپنے اندر اتنے دکھ لیے ہوئے ہے۔۔ وہ سب کے سامنے ایسے رہتی تھی ہے کوئی اُسکا چہرا نہیں پڑھ پاتا تھا۔۔ "ویسے ایک بات بتاؤ تُم اللّٰہ سے اتنا نزدیک کیسے ہوئی، وہ اب اُسکے چہرے کو بہت غور سے دیکھ کر بولا۔۔۔ مائشا نے اسکو دیکھا۔۔۔ اور بولی " ذیشان اللّٰہ وہ ہے جو اپنے بندے کا ساتھ نہیں چھوڑتا ہے لمحہ ہر پل ساتھ رہتا ہے ہر دن گزرتے کسی نہ کسی کو آپکا ذرائع بنا دیتا ہے جیسے آپکو بنا کر بھیجا تھا اللّٰہ نے ۔۔ وہ بولی تھی۔۔۔ ہممم وہ صرف اتنا ہی کر سکا کیونکہ اس لڑکی کی باتیں اُسکے دل اور دماغ دونوں کو ہلا کر رکھ دیتی تھی۔۔۔ اللّٰہ آپ اسکو جلدی صحتیابی عطا کر دیں امین !!! کبھی کبھی دعا اتنی جلدی پوری ہوتی ہے کہ انسان کو یقین کرنے میں وقت لگ جاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی خواب ہو جو آنکھ کھولی اور ٹوٹ گیا۔۔۔ آپریٹ روم کا دروازہ کُھلا اندر سے ڈاکٹر باہر آئی ۔۔۔ 
Congratulations.. 
Both mother and baby are out of danger..
مبارک ہو .. ماں اور بچہ دونوں خطرے سے باہر ہیں
اسکو اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں ہوا تھا۔۔۔ وہ اسکو سن کر وہیں بیٹھتا چلا گیا۔۔۔ الحمدللہ الحمدللہ !!! بے شک اللّٰہ توں ہی ہے تعریف کے لائک !! تیرا جیسا کوئی نہیں کوئی بھی تو نہیں !!! وہ اپنی آنکھوں سے شکر کے آنسوں بہتا بولا ڈاکٹر کو بھی ایسے دوست پر اُس لڑکی پر رشک ہوا تھا۔۔۔ zm یعنی ذیشان مجتبٰی جو کبھی اللّٰہ کا نام بھی نہیں لینا پسند کرتا تھا آج وہ اللہ کی تعریف کرتے نہیں تھک رہا تھا۔۔۔ ذیشان مجتبٰی جہاں دشمنی میں جان لینی جانتا تھا، وہاں دوستی اور محبّت میں جان قربان کرنی جانتا تھا۔۔۔۔ اُسنے جلدی سے آنسوں پوچھے اور پھر ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوا۔
Can i meet them...?
"کیا میں ان سے مل سکتا ہوں؟ 
No !! 
Now leave the mother and the two children alone until some tests are cleared and then we will shift them to a private room. Then you can meet them.
نہیں !! 
"اب ماں اور دونوں بچوں کو اس وقت تک تنہا چھوڑ دو جب تک کہ کچھ ٹیسٹ کلیئر نہیں ہوجاتے ہیں اور پھر ہم انہیں نجی کمرے میں شفٹ کردیں گے۔ تب آپ ان سے مل سکتے ہیں۔
What?
"کیا؟؟؟
دو یعنی ٹونز بے بی ماشاللہ !! 
وہ بہت خوش تھا اور ڈاکٹر اسکو دیکھ کر حیران" کیونکہ ایسے تو صرف باپ ہی خوش ہوتا تھا اپنے بچے کی پیدائش پر۔
" پھر یہ؟؟؟ ڈاکٹرز کے لئے یہ بہت حیرانی کی بات بھی تھی تو ایک طرف خوشی کا باعث بھی کیونکہ دنیا میں کہاں ایسے لوگ ملتے تھے جو کسی اور کی خوشی میں کوئی اور خوش ہو۔۔۔ 
"تھینک یو ڈاکٹر !! 
وہ خوشی سے جھوم ہی اٹھا تھا۔۔ ڈاکٹرز مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی۔۔ اور وہ اللہ کہ شکر ادا کرنے اللہ کی بارگاہ میں چلا گیا تھا۔۔۔
جہاں آج منہال کو کھڑا ہونا تھا وہاں zm ( ذیشان مجتبٰی) کھڑا تھا اور ایک دوست ہونے کا فرض بخوبی سرانجام دے رہا تھا۔۔ اُسکے لیے وہ محبّت اُسکا عشق بعد میں تھی پہلے وہ اُسکے لیے ایک دوست تھی اور بہت عزیز بھی۔۔۔
"منہال !! میرے بچے عائشہ بیگم دروازے کو دیکھ دیکھ کر بہت رو رہی تھی۔۔ جہانگیر اپنی بہن کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا تھا صرفان اندر روم میں ہی تھا۔۔ 
"عائشہ میری جانِ !! اللہ پر یقین رکھو ہمارے منہال کو کچھ نہیں ہوگا انشاءاللہ !! جہانگیر نے اپنی بہن کو ہوسلا دیتے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔
"ب بھائی و وہ !!! عائشہ بیگم پھر سے رونے لگی۔۔ منہال کو آپریشن روم میں گئے ساڑھے تین گھنٹے گزر گئے تھے۔۔۔ 
اُسکے سر میں کافی چوٹیں آئی تھی دیا بازوں بہت جکھمی ہوا تھا جبکہ ایک کانچ کا ٹکڑا سینے کے اندر گھس گیا تھا۔۔۔ 
اب اُس کانچ کے ٹکڑے کو ہی نکالنے کے لئے آپریٹ کیا جا رہا تھا۔۔۔ 
"بھائی میرا بیٹا ٹھیک تو ہو جائے گا نہ ؟؟ عائشہ بیگم نے اپنے بھائی کی طرف دیکھ کر ایک اُمّید سے پوچھا۔۔ جہانگیر نے نظریں چرائی تھی اپنی بہن کے یوں اُمّید سے دیکھنے پر 
"عائشہ ہم ڈاکٹرز صرف ایک ذرائع ہی ہے " انسانوں سے اُمّید نہیں لگاتے ،کیونکہ اُمّید کو پورا کرنا انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا، اللّٰہ پر کامل یقین رکھو انشاءاللہ ہمارا منہال بہت جلد صحتیاب ہو جائے گا۔۔۔ 
"یہ چند لمحے کی کڑی آزمائش ہے ، اور اس آزمائش میں ہمیں اللہ پر یقین رکھنا ہے بسس ہمت مت ہارو ہمارا بیٹا ٹھیک ہوگا ۔۔ 
اس سے زیادہ جہانگیر اپنی بہن کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔ وہ اپنی بیوی کو اشارہ کرتا وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔ 
اور عائشہ بیگم پرائیر روم میں اپنے اللّٰہ سے اپنی بیٹے کی زندگی مانگنے چلی گئی ۔ 
بےشک وہ ہی تو ہے جو سب کی دعاؤں پر کن کہتا ہے۔۔۔
********************
ملک صاحب کو تین گھنٹے بعد ہوش آ گیا تھا۔۔ اب وہ خطرے سے باہر تھے سب نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا ۔ ملک صاحب کو پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔۔ سب ہی اب اُنکے پاس روم میں تھے عالیان انکا ہاتھ تھامیں بیٹھا تھا اور ملک صاحب دوائیوں کے زیر اثر سو رہے تھے۔۔۔ گھر کی ساری خواتین کو واپس حویلی بھیج دیا گیا تھا ۔۔ حسن شاہ ، شہزین ، عالیان اور دادا جان ہسپتال میں ہی تھے ۔۔ "بابا جان آپ بھی گھر چلے جائیں نہ بہت تھک گئے ہوگے ، حسن شاہ نے احسان صاحب سے کہا۔۔ " نہیں بیٹا میں آپ سب کے ساتھ ہی واپس حویلی جاؤنگا۔۔" اور پھر... !! وہ کچھ بولتے بولتے خاموش ہوئے تھے ۔۔"" ہمم ٹھیک ہے دادا جان آپ ہمارے ساتھ ہی چلنا شاہزین نے دادا جانِ کے ہاتھوں پر بوسہ دیتے کہا اور پھر حسن شاہ سے بولا۔۔۔ "تایا جان !! میں ابھی آیا وہ یہ بولتا روم سے نکل گیا تھا سب وہاں بیٹھے آگے کے حالات کے بارے میں سوچ رہے تھے۔۔۔۔ اب آگے کے حالات پتہ نہیں کون سی صورت اختیار کرنے والے تھے۔۔؟ 
******************** 
سلمان شاہ اپنے بیٹے کی ایکسیڈنٹ کی خبر سنتے ہی پہلی ایمرجنسی فلائٹ سے انڈیا آئے تھے۔۔ لاکھ ناراضگی صحیح لیکن تھی تو وہ اُنکی اولاد ہی۔۔ اور ماں باپ کتنا بھی اپنے بچے سے ناراض ہو لیں لیکن ایک سوئی چبھنے پر ہاتھوں پر مرہم بھی وہی لگاتے ہے۔۔ سلمان شاہ سیدھا ایئر پورٹ سے قریب رات کے دس بجے ہسپتال آئے تھے۔۔ وہ جلدی جلدی قدم بڑھاتے آ رہے تھے جب اُنکی ٹکّر ایک لڑکے سے ہوئی وہ لڑکا جو اپنی ہی دھن میں چلا جا رہا تھا اُسکے ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل دور جا کر گر گئی تھی۔۔۔۔ سلمان شاہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولے۔۔ " س سوری بیٹا جلدی میں تھا ،جب وہ لڑکا اُنکی بات درمیان میں کاٹتے بولا انکل کوئی بات نہیں آپکی غلطی نہیں ہے میں ہی دیکھ کر نہیں چل رہا تھا۔۔ جب پیچھے سے کسی نے اسکو آواز دی "عالیان بیٹا !! عالیان .... سلمان شاہ زیر لب بڑبڑاتے ہوئے اُس لڑکے کو دیکھنے لگے غور سے۔۔ عالیان نے پیچھے پلٹ کر دیکھا۔۔ اور کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔۔ "دادا جان آپ !! سلمان شاہ نے اُس لڑکے سے نظریں ہٹا کر سامنے کھڑے شخص کو دیکھنا چاہا تھا۔۔۔ " سر آپکو جہانگیر سر اپنے آفیس میں بلا رہے ہیں ، ایک بچے نے آ کر سلمان شاہ کو اطلاع دی تھی ، سلمان شاہ بھی دیکھنے کہ ارادہ ترک کرتے جہانگیر کے آفس کی طرف بڑھ گئے تھے۔۔۔
اور عالیان دادا جانِ کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔۔۔
" دادا جان آپ !! بابا کے پاس تھے پھر یہاں .؟؟ وہ کچھ کام کا بول کے احسان صاحب کو ملک شاہ کے پاس ہی چھوڑ کر آیا تھا۔۔۔ اسکو صرفان سے ملنا تھا۔۔ بہت دنوں بعد وہ لندن سے واپس آیا تھا ۔۔ پھر بابا کی طبیعت کے باعث وہ ہاسپٹل میں موجود ہوتے ہوئے بھی نہیں مل پایا تھا۔۔ اب جب ملک شاہ کے طبیعت ٹھیک تھی روح وہ صرفان سے ملنے اُسکے آفس کی طرف جا رہا تھا۔۔۔ جب اچانک ان انکل سے اُسکی ٹکّر ہوئی تھی ۔۔ اور پھر دادا جان کا انا۔۔" بیٹا کہاں جا رہے ہو؟ دادا جان نے اُس سے پوچھا۔۔ " وہ ینگ مین" میں صرفان سے ملنے جا رہا تھا۔۔" کیوں کوئی کام ہے کیا آپکو ؟ وہ بول کر اب پوچھ رہا تھا ۔" ہاں ! دراصل ، اچھا آپ جاؤ بعد میں بات کر لیتے ہیں دادا جان نے عالیان کو جانے کا کہا " جی !!! وہ یہ بولتا صرفان کے کیبن کی طرف بڑھ گیا تھا، جبکہ دادا جانِ ہاسپٹل کا جائزہ لینے لگے تھیں۔۔ 
*********************
وہ جب مسجد سے شکرانے کے نماز ادا کر کی واپس ہسپتال آیا تو اسکو جس روم میں مائشا تھی وہاں بہت بھگدڑ دکھائی دی ایسا للہ رہا تھا جیسے ڈاکٹر بہت جلدی میں ہو ، وہ جلدی سے وہاں پہنچا تھا۔۔ اور ایک نرس کو روکتے ہوئے بولا۔۔ 
"sister !!
"everything is fine..
وہ روم کی طرف اشارہ کرتے پریشانی سے پوچھ رہا تھا۔۔ سر اندر جو مریض ہے اُنکی ایک دم بہت حالت خراب ہو گئی ہے۔۔ 
وہ نرس بولتی جلدی سے اندر کے جانب بڑھ گئی تھی۔۔ 
اور وہ شیشے کے اُس پار مائشا کی بگڑتی حالت کو دیکھ کر ازحد پریشان ہو گیا تھا۔۔۔ وہ باہر کھڑا ہو کر اللّٰہ سے مسلسل دعا کر رہا تھا۔۔ اسکو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ابھی تو بلکل خطرے سے باہر تھی اُسکی ڈول ، پھر ایک دم ؟؟؟ 
تبھی دو ڈاکٹر باہر نکلے وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے ۔۔" ڈاکٹر محسن ان پیٹنٹ کی جو حالت ہے نہ مجھے نہیں لگتا ہم سے اب یہ کور ہو پائے گی۔۔ 
"آئی تھنک ہم نے بہت کوشش کر لی ہے۔۔ اب صرف ڈاکٹر صرفان ہی کچھ کر سکتے ہیں۔۔
ڈاکٹر سمعیہ نے ڈاکٹر محسن سے کہا تھا۔۔ 
"ہممم !! ڈاکٹر سمعیہ آپ صحیح بول رہی ہے، اب ہمیں ڈاکٹر صرفان کو بلانا ہی ہوگا۔۔
"لیکن ڈاکٹر صرفان !! وہ کچھ بولتی کہ نرس دوڑتی ہوئی اُنکے پاس آئی تھی "میم !! میم اُنکی حالت بہت خراب ہو رہی ہے۔
میم وہ پٹینٹ کسی کا نام مسلسل لے رہی ہے۔۔۔ کوئی منہال نامی شخص ہے شائد ؟ وہ نرس اندازہ لگاتی جلدی جلدی بولی تھی اور وہ دونوں ڈاکٹر اُس نرس کو ڈاکٹر صرفان کو بلا کر لانے کا بول کر ایک بار پھر اُس روم میں چلے گئے تھے ۔۔ 
ذیشان دور کھڑا یہ سب سن رہا تھا اور آج وہ اپنے اللّٰہ سے اُس لڑکی کی زندگی کے لیے دعا گو تھا۔۔۔ 
آج اسکو صحیح معنوں میں اپنی زندگی ڈوبتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ہی ایک نوجوان ڈاکٹر جلدی سے اُس نرس کے ساتھ آیا تھا اور دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔۔۔ 
ڈوبتی زندگی میری
سانسوں سے تیری جڑی ہے
کیا بتاؤں میں تُجھے
تُو ہو کر بھی کسی اور کی
لیکن میں پھر بھی تیرا رہا
خیالوں کا ایک شہر میرا 
جس میں تُو ہے
دعاؤں کے ایک جہان میں 
میں تیرا منتظر ہوں
تُجھ سے وابستہ ہے میری خوشی 
تُو سلامت رہے تو میں خوش ہوں
مجیبہ چودھری

*********************
صرفان نے جیسے ہی روم کے اندر قدم رکھا تھا سبھی ڈاکٹر اُسکے پیٹنٹ سے دور ہو کر کھڑے ہو گئے تھے۔۔ " سر انکی بہت کریٹیکل کنڈیشن ہیں ، ابھی تھوڑی دیر پہلے تک بلکل ٹھیک تھی " لیکن اب ایک دم صرفان مریض کی طرف بڑھا ، مائشا کا چہرا دوسری جانب تھا بکھرے بال بے ترتیب آنسوؤں سے تر چہرا جن کے نشان ابھی بھی نظر آ رہے تھے ،کمزور پیلا پڑتا چہرا وہ بہت کمزور دکھ رہی تھی ،" ڈاکٹر ؟؟وہ کُچّھ بولتا تب اُسکے کانوں سے ایک نہ مانوس سی آواز ٹکرائی تھی۔۔۔
"م م منہال م منہال !! ........
اُس نے جھٹکے سے اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔ آکسیجن ماسک میں بھی لمبے لمبے سانس لیتی ہوا وہ وجود ، اس آواز کو وہ کیسے نہیں پہچانتا ، یہ ہی تو تھی" ہاں ...!!! یہ ہی تو اُسکے بھائی کی زندگی تھی۔۔۔" کیسی محبّت تھی ان دونوں کی ؟؟ دونوں ہی آج زندگی اور موت میں تھے ، دونوں وجود آج ایک دوسرے کی وجہ سے ہی تو اس حالت میں پہنچے تھے بے اختیار صرفان کی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے۔۔
اُسنے جلدی سے مائشا کو منہال کے روم میں شفٹ کیا تھا۔۔ 
" ذیشان جان گیا تھا کہ منہال یعنی ms  اور مائشا کی ایک دوسرے میں جان بستی ہے 
وہ دونوں دو جسم ایک جان ہے،  تو وہ اپنے قدم واپس لیتے پلٹ گیا تھا اُنکی زندگی سے دور کبھی نہ آنے کے لئے وہ صرفان جانے سے پہلے صرفان کے کیبن میں گیا اپنا ایک ضروری کام ختم کرنے کے لئے۔۔
وہاں سے اسکو پتہ چلا کہ ڈاکٹر صرفان ابھی بزی ہے روح بعد میں بتانے کہ ارادہ کرتے وہاں سے یعنی ہسپتال سے نکل گیا تھا۔۔
ایک آنسوں ٹوٹ کر اُسکی آنکھوں سے زمین  بوس ہوا تھا۔۔۔
اُس نے زندگی میں جس سے بھی محبّت کی تھی حالات اور وقت نے اُس پر اتنے ہی بے رحمی سے وار کیا تھا۔۔ 
لیکن آج وہ پرسکون تھا ، کیونکہ مائشا کی محبّت کے ساتھ ساتھ اسکو اپنی زندگی کا ایک مقصد مل گیا تھا اور وہ تھا اللّٰہ کا راستہ ۔۔
جب ارادہ پختہ ہو ، منزل نہیں دور پھر
خدا تک رسائی کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہے

"انسان بھی کیا عجیب شے ہے نہ وہ لینے کیا نکلتا ہیں ، اور لوٹتا کیا لے کر ہیں ، ایسے ہی ذیشان مجتبٰی کے ساتھ ہوا تھا وہ انڈیا واپس اپنا انتقام لینے آیا تھا ، لیکن خدا کو منظور تو اور کچھ تھا پھر وہ کیسے اپنی مرضی چلا سکتا تھا ، اور مل گئی اسکو دنیا کی سب سے انمول نعمت وہ تھی اللّٰہ کی محبّت ہاں ذیشان مجتبٰی نے اپنی محبّت کو اللہ کے جانب رجوع کر لی تھی۔۔ 
اور جب انسان اپنی ہر گناہوں ہر غلطیوں کو لے کر ایک بار دل سے اللّٰہ کے سامنے اپنی غلطیوں کی معافی مانگنے جاتا ہے نہ تو اللہ اُس بندے کی ہر اُس گناہ چاہے پھر وہ کبیرہ گناہ ہو یا صغیرہ گناہ ایک بات کی توبہ سے اُسکی پچھلی ہر برائی پر ایسا پردہ ڈال دیتا ہے کہ کوئی اسکو دیکھنا بھی چاہے تو نہیں دیکھ سکتا ، خود بخود اللّٰہ سارے ثبوت مٹا ڈالتا ہے کیونکہ وہ بہت عظیم الشان عظمت والا ہے۔۔ اللّٰہ نے ذیشان مجتبٰی کی ہر غلطی ہر کوتاہیوں پر اُس دن ہی پردہ ڈال دیا تھا جب اُس نے اللہ کا نام لیا تھا ایک بات نہیں کئی بار لیا تھا۔۔ اُس دن ختم ہو گئے تھے سارے ثبوت اُسکے اُسکی ہر برائی مٹا دی گئی تھی اور اُسکی دنیاوی زندگی کو بھی محبّت سے بھری جنّت کی زندگی بنا دی تھی۔۔۔۔۔
"اللہ حافظ ڈول !! وہ ایک نظر اس ہسپتال کی بلڈنگ کو دیکھ کر چلا گیا تھا بہت دور 
"کیا ذیشان مجتبٰی پھر کبھی اپنی ڈول سے مل پائے گا؟؟ 
************************
منہال اور مائشا دونوں کا ٹریٹمنٹ ساتھ چل رہا تھا مائشا کا بیڈ جسٹ منہال کے بیڈ کے برابر میں تھا  اور دونوں بے بی بھی اُنکے ہی برابر میں تھے ۔۔ وہ دونوں وجود کافی حد تک اپنے آپکو کو ریکور کر رہے تھے، کہتے ہیں نہ محبّت کا تو ایک احساس ہی کافی ہوتا ہے وجود میں سانس دینے کے لئے ایسا ہی ان دونوں کی محبّت تھی جہاں دونوں پاس ہوئے زندگی نے دوبارہ انکو زندگی کی نوید سنا دی تھی ۔
سب بہت خوش تھے بہت اب وہ دونوں دوائیوں کی وجہ سے سے رہے تھے ، سلمان شاہ، عائشہ بیگم ، صرفان اور اُسکے ماما بابا وہ سارے وہیں روم میں بیٹھے اپنے ننھے ننھے شہزادی شہزادے کے ساتھ کھیل رہے تھے سب کو مائشا اور منہال کے ہوش میں آنے کا انتظار تھا۔۔۔۔
وہ سب ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے جب دروازہ کھلا اور نرس اندر آئی۔۔
"سر آپکا کوئی آپکے آفس میں انتظار کر رہا ہے !! 
"اوکے !! آپ جاؤ میں آتا ہوں ، وہ یہ بولتا ننھی سی گڑیاں کے گالوں کو چھوتا وہاں سے چلا آیا تھا۔۔۔۔
*********************
وہ گلاس وال کی طرف چہرا کیے بیٹھا تھا ایک طرف سے ہلکا سا چہرا نظر آ رہا تھا۔۔ ہاتھ میں موبائل پکڑے کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ پلٹا " سامنے صرفان کھڑا اسکو حیران اور مسکراتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
"السلام وعلیکم جناب !!! "اور بڈی کیسے ہو ؟ وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے سے گلے ملتے بولے۔۔ 
الحمدللہ !! یار اب ٹھیک ہے وہ دونوں بیک وقت ایک ساتھ ہی بولے ،" کیونک ؟ کیا ہوا؟ پھر ایک ساتھ دونوں یہ الفاظ بولے اس طرح بولنے پر اُن دونوں کا چھوٹا سہ كہکا لگا کر ہنس دیے۔۔ 
"اچھا یہاں کیسے تُو بھئی سنا تھا تونے اپنا انڈیا آنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے صرفان نے اُسکی پیٹھ اور دھموکہ جڑتے پوچھا تھا۔۔
"یار بسس !!! کیا بتاؤں ؟؟؟ چل توں کچھ نہ بتا صرف یہ بتا کیا لے گا ، کافی یا چائے ؟ صرفان نے اُس سے پوچھا ..
نہیں بسس کچھ نہیں دل نہیں ہے ابھی کسی بھی چیز کو ، وہ اکتائے لہزے میں بولا تھا۔۔ 
اُسکا یہ انداز صرفان کو پریشان کر گیا تھا ۔ 
عالیان سب ٹھیک تو ہے گھر پر؟؟ صرفان نے فکر مندی سے اسکو دیکھتے پوچھا۔۔
وہ کیا بتاتا اسکو کہ اُسکی ماما !!! وہ آنکھوں کو بند کرتے پھر سے کھولیں تھی۔۔
" یار کل سے بابا کی طبیعت خراب تھی تو بسس کل سے یہیں ہوں ہسپتال میں ،وہ مختصر سا بتا کر خاموش ہو گیا تھا۔۔۔ 
Ohhhhhh.....
چلو فکر نہیں کرو اللہ سب ٹھیک کر دے گا ، صرفان نے اسکو تسلّی دی تھی۔۔ 
" ہممم !!!
اچھا منہال کیسا ہے ؟؟ اور مائشا وہ کیسی ہے ؟؟  عالیان نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا تھا ،صرفان کو اُسکے سوال سے چپ کا کفل لگ گیا تھا ۔۔ 
الحمدللہ !! وہ بسس اتنا ہی بولا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب مزید اُسکا دوست پریشان ہو 
"اچھا یار میں چلتا ہوں ،انشاءاللہ بہت جلد ملاقات ہوگی عالیان کھڑا ہوتا بولا اور اجازت لے کر وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔۔۔
صرفان بھی آفس سے نکل کر اب اپنی چھوٹے چھوٹے شہزادے اور شہزادی کے پاس چلا گیا تھا۔۔
***********************
وہ سب بیٹھے تھے رات کے نو بج رہے تھے ،منہال کو ہوش آیا گیا تھا جبکہ مائشا کو ابھی کچھ وقت کے لئے نیند کا انجکشن لگا کر سلا دیا گیا تھا اب وہ دوائیوں کے زیرِ اثر سو رہی تھی ۔۔
منہال نے جب آنکھ کھولی تو خود کو ہسپتال روم میں پایا اُسنے قرب سے آنکھیں موندلیں تھی۔ ایک آنسوں ٹوٹ کر تکیے میں جذب ہو گیا تھا۔۔
پانی کی شدّت اسکو بہت تھی پانی کے لیے نظریں دائی جانب کی تھی جب اُسکی نظر برابر میں پڑے ہسپتال بیڈ پر مائشا کو دیکھ کر حیرت ہوئی تھی ۔۔
اُسکی تو یہ ایک خواب ہی لگا تھا۔۔۔ اُسنے ہاتھ بڑھا کر اُسکی چھونا چاہ لیکن ڈرپ کی وجہ سے نہیں چھوں پایا تھا ۔۔۔
اور دوست آگئی ہوش !!! صرفان دروازہ کھولتا دانتوں کی نمائش کرتے اُسکی جانب بڑھا تھا۔۔۔
وہ اُسکی بات کو نظر انداز کرتا بولا۔۔۔
" یہاں مائشا ہے نہ ؟؟؟ 
کہاں ؟؟ صرفان آنکھوں کو پھیلانے کے انداز میں بولتا اپنی ہنسی کنٹرول کر رہا تھا۔   
دیکھ یہ رہی ، اُس نے ہاتھ سے اشارہ کرتے بتایا... 
لگتا ہے کچھ زیادہ ہی چوٹ کا اثر دماغ پر پڑ گیا ہے وہ ہنستے ہوئے بولا۔۔۔
"بقواس نہ کر ؟ وہ دھاڑا تھا۔۔ 
"اچھا اچھا ریلیکس !!! ہاں یہ بھابی ہی ہے۔۔۔
اور تُجھے پتہ ہے وہ آنکھوں کو مٹکاتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔
"ابے اوۓ ڈراما بند کر اور بتا جو تُجھے پتہ ہے اور مجھے نہیں پتہ منہال اسکو گھور رہا تھا۔۔
اُسکا بس چلتا تو وہ اب تک اُسکا سر دیوار میں مار چکا ہوتا۔۔
اوۓ !!!! کمینے انسان منہال کے الفاظ تو منہ میں ہی رہ گئے تھے ،جب اسکو بچوں کی رونے کی آواز آئی تھی۔۔۔
" یہ یہ یہ ک کون رو رہا ہے؟ منہال نے بچوں کی رونے کی آواز کو سُن کر حیرت سے پوچھا۔۔
"یہ لو کیسا زمانہ آ گیا ہے ،
"باپ کو بچے یاد نہیں رہے ، بیوی کو شوہر اور بوئے فرینڈ کو گرل فرینڈ اور پرانی محبوبہ کو چھوڑ کر اپنے یاروں نے رچا لیا بیاہ ، مجھ معصوم کا کسی کو نہیں خیال ۔۔
"ہہہہہہ ھاھاھاھا ...  
چل کوئی نہیں رچ جائے گا تیرا بھی بیاہ بس صبر کر منہال نے اُسکی دُکھتی رگ پر وار کیا تھا ، اور وہ اپنی دانتوں کی نمائش کرتا منہال کو تپا گیا تھا ۔۔
یہ تھی اُنکی زندگی کی آنے والی خوشیوں کی ایک چھوٹی سی روشنی ۔۔۔
**********************
پانچ سال بعد»»»
"ہائے بیوٹیفل پانچ سالہ ریحام علینہ اور صرفان کے مشترکہ روم میں آتے ہوئے شرارت سے ایک آنکھ کا گوشہ دباتے علینہ سے بولا۔۔
"ری !!!! کتنی بار بتایا ہے میں نے آپکو میں بیوٹیفل نہیں ہوں صرف آپکے چاچو کے لئے بیوٹیفل ہوں ورنہ میں آپکی تو پرنسز ہوں علینہ مصنوی غصّہ چہرے پر سجائے بولی ۔۔
بیوٹیفل تو آپ صرف میری ہے " ہاں چاچو کے لیے وہ کچھ سوچنے سے کے انداز پر اپنی شہادت کی انگلی سر پر رکھتے بولا۔۔
"ہاں آپ چچو کی "لو" ہو ، اُسکی بات پر باتھرُوم سے نکلتے صرفان کا کہکا بلند تھا 
"ہاہاہاہاہا ہہہہہہ..... 
پل میں علینہ کا چہرا سرخ ہوا اور وہ اُن دونوں کو گھورتی روم سے چلی گئی۔۔
ہاہاہاہاہا اب وہ دونوں چاچا بھتیجے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس رہے تھے ۔۔
"کیا جواب دیا شاباش میرے شیر !!! مجھے پتہ ہے ایک دن توں اپنے چاچو کا نام امریکہ کے ورلڈ کپ پر لکھوائے گا۔۔
"چاچو فکر نوٹ !! 
آپکا شیر آپکا نام ورلڈ کپ پر ضرور لکھوائے گا
انشاءاللہ.. 
اُسکی بات پر صرفان نے اُسکے گالوں کو چما تھا 
"ہائے میرا شیر ایک تُو ہی ہے جو مجھے سمجھتا ہے، وہ ریحام کو گود میں بیٹھاتے بولا۔۔
اور پھر دونوں مسکرا دیے تھے۔۔
پانچ سال پہلے سارا خاندان اللہ نے ملوا دیا تھا۔۔
سلمان شاہ نے اپنی قسم کو توڑ کر اپنے بابا سے معافی مانگ لی تھی اور احسان صاحب نے بھی اپنی ماضی میں کی گئی غلطیوں کی معافی مانگ کر ایک دوسرے کو معاف کر دیا تھا ۔
علینہ اور صرفان کی شادی ہو گئی تھی جبکہ منہال نے اپنی اور اپنے بچوں کو آنے کی خوشی میں ایک گرینڈ پارٹی کی تھی اور پھر اللہ کا شکر ادا کر کے آنے والی خوشیوں کے لیے دعا کی تھی۔۔۔
شہزین اور مدیحہ کے درمیان ہونے والی بے وجہ کی دشمنی ختم ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
مدیحہ کو سچائی کا پتہ لگ گیا تھا کہ وہ کمال شاہ کی بیٹی ہے۔۔ اور اُسنے تہے دل سے سب کو قبول بھی کیا تھا۔۔۔۔
شہزین اور مدیحہ کے اللہ نے رحمت سے نوازا تھا اُسکا نام سب نے ریحام کی پسند کا رکھا تھا وہ بھی رحمت !! ہائے ریحام کی رحمت 😂😂😂
یہ ریحام کہتا تھا کہ رحمت میری ہے اور سب اُسکی اس بات پر ہر بار مُسکرا دیتے تھے۔۔
شھزیب نے خودکشی کر لی تھی۔
کہتے ہیں نہ بُرا کرنے کا نتیجہ بُرا ہی ہوتا ہے جو دنیا کے پیچھے بھاگے گا وہ ہمیشہ دلدل میں ڈوب کر مر جائے گا ایسا ہی شاہزیب کے ساتھ ہوا تھا وہ دنیا کے پیچھے بھاگا تھا تو نتائج بھی بُرا ہی ہوا تھا۔۔
صائمہ بیگم بدلے کی آگ میں اتنی اندھی ہو گئی تھی کہ انکو اپنا اچھا بُرا کچھ نہیں دکھا تھا ۔۔ پانچ سال پہلے ملک شاہ نے گھر آتے ہی صائمہ بیگم سے اپنے ہر تعلق ختم کر دیے تھے۔۔ 
اب وہ اپنے بھائی کے گھر ایک بہت ہی بری زندگی گزار رہی تھی۔۔
"جیسا بوئے گے ویسا ہی کاٹو گے"
یہ ایک بہت پرانی اور سچّی کہاوت ہے۔۔
ہمارے عالیان صاحب نے سادگی سے نکاح کیا تھا اب وہ بھی ایک خوشگوار زندگی اللّٰہ کی رضا میں راضی ہو کر گزار رہا تھا۔۔
اللہ نے اسکو ایک بیٹا دیا تھا ، وہ لندن میں ہی رہائش پذیر تھے کیونکہ آج بھی عالیان کے دل میں مائشا رہتی تھی کہیں نہ کہیں اس لیے وہ نکاح کے بعد لندن ہی آ گیا تھا۔۔۔
*********************
وجود سلگتی راہوں پر ،
خموش میرا وجود بنی،
دنیاوی خوشی تھی عارضی 
خدا کی محبّت میری حقیقت بنی
مجیبہ چودھری

"رامین رامین گڑیاں کہاں ہو بھئی ؟ ذیشان آواز دیتا  اُسکے روم تک آیا تھا، لیکن وہ ہوتی توں جواب بھی دیتی کہاں گئی وہ پریشان ہوتا ہوا باہر کی جانب جانے لگا تھا " بھوں ں ں ں ... !!!!!!! پیچھے سے رامین نے آ کر اسکو ڈرا ہی تو دیا تھا۔۔
اُسکا یوں ڈر جانا رامین کی تو ہنسی ہی نہیں رُک رہی تھی۔۔
"ہاہاہا ہاہاہا ہاہاہا " وہ پیٹ کو پکڑے بے تحاشہ ہنس رہی تھی اور وہ اپنی بہن کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔
اُسنے اپنی بہن کو ایک دم خود میں بھینچا تھا اور اُسکے ماتھے اور بوسہ دیتے بولا۔۔
"مجھے معاف کرنا گڑیاں تیرا بھائی بہت ہی بُرا ہے اُسکی آنکھوں سے آنسوں بہ رہے تھے۔۔
"نہیں بھائی آپ دنیا کے سب سے بیسٹ بھائی ہے ، رامین مجتبٰی نے اپنے بھائی ذیشان مجتبٰی کی آنکھوں سے اپنے ملائم ہاتھوں سے آنسوؤں کو چنا تھا اور پھر اپنے بھائی سے گردن کو نہ میں ہلا کے رونے سے منع کیا تھا۔۔
ذیشان اُسکے اس انداز پر مسکرا دیا تھا۔۔۔
اب آپ سوچ رہے ہوگے کہ رامین مجتبٰی کیسے ملی ذیشان مجتبٰی کو تو میں بتاتی چلوں 
جب انسان اللّٰہ کے راستے میں اپنا پہلا قدم بڑھاتا ہے  تو اللہ اپنے بندے کے ہے دکھ ہر کھوئے ہوئے رشتے سب کچھ لوٹا دیتا ہے ایسا ہی ذیشان مجتبٰی کو اللہ نے لوٹا دیا تھا اُسکی بہن ، جب وہ ہاسپٹل سے گھر کے لیے روانہ ہوا تو راستے میں اسکو ایک انجان نمبر سے کال آئی تھی۔۔
اُسنے وہ کال اٹھائی تو کوئی اجنبی تھا " ہیلو !! کیا آپ ذیشان مجتبٰی بات کے رہے ہیں؟؟ دوسری جانب سے انجان شخص نے اُس سے پوچھا ...
"جی !! لیکن آپ کون ؟ 
" سر میں ہادی مجتبٰی کا  ملازم بول رہا ہوں۔۔ ذیشان نے موبائل کو ایسے دیکھا جیسے ابھی کھا جائے گا اُس شخص کے نام پر اُسکے اندر کا zm جاگ رہا تھا۔۔
"اپنے غصّے پر قابو پانا سیکھو ، مائشا کے الفاظ گونجے تھے۔۔
اللہ !!! اُس نے نام لیا اور خود پر قابو کیا ۔۔
آپ یہاں ہادی مجتبٰی کے بنگلے میں آ جائے آپکو ہادی مجتبٰی یاد کر رہے ہیں ۔۔ اُس شخص نے اسکو بتایا وہ کنٹرول کرتا بولا میرا کوئی واسطہ نہیں ہے اُن سے " سر وہ آپکو آپکی امانت لوٹانا چاہتے ہیں... اُس شخص نے اسکو بتانا ضروری سمجھا تھا۔۔
ٹھیک ہے وہ آسانی سے مان گیا تھا اور اپنی گاڑی ہادی مجتبٰی کے بنگلے کے جانب موڑ لی تھی۔۔۔
آدھا گھنٹے کا سفر اُسنے پندرہ منٹ میں پورا کیا تھا ۔
اب وہ ہادی مجتبٰی کے لاؤنج میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔۔۔
" وہیل چیئر پر کی آواز پر وہ پلٹا ایک پچپن  سالہ شخص بیٹھا تھا وہیل چیئر پر ...
اُسنے انکو سر تا پا دیکھا اور ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر رینگ گئی تھی۔۔۔
"صبر بہت قیمتی شے ہے دوست یہ وہ کر دکھاتا ہے جو انسان ساری زندگی بھی کر نے کی منہ توڑ کوشش کر لیں تو بھی نہیں کر پاتا ، واقعی اُس لڑکی کی ہر بات ہی تو سچی تھی۔۔
وہ وہیل چیئر اُسکے سامنے آ کر رکی تھی ۔۔
وہ شخص اسکو دیکھ رہا تھا اور پھر ایک دم اپنے ہاتھوں کو حرکت سے تھی اور آگے کی جانب اُسکے پیروں میں گرا تھا۔۔ 
"ب بیٹا مجھے معاف کر دو !! وہ آنسوں بہتا ذیشان سے بول رہا تھا۔۔
ذیشان نے اعلیٰ ظرفی سے ذھک کر انکو اٹھایا اور پھر بولا جاؤ اللّٰہ کے واسطے میں نے آپکو معاف کیا۔۔
" ہادی مجتبٰی آج زندگی میں روئے تھے بہت زیادہ۔۔
اُنہونے انے آنسوں صاف کرتے اپنے ملازم کو اشارہ کیا تھا ،اشارہ سمجھتے ہیں ملازم اندر ایک روم میں گیا تھا۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ ملازم باہر نکلا اُسکے ساتھ ایک بہت ہی پیاری سی لڑکی تھی۔۔
سر پر دوپٹہ اوڑھے کالا سلوار سوٹ پہنے وہ لڑکی بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔۔
وہ لڑکی اُنکے پاس آ کر رکی تھی " اور ذیشان کو دیکھ کر ایک دم سے ہی اُسکے گلے لگ گئی تھی یہ اتنا اچانک تھا کہ خود ذیشان کو بھی سمجھ نہیں آیا وہ لڑکی روتے ہوئے بولی " بھائی !!!! 
اور ذیشان مجتبٰی نے ہادی صاحب کی طرف دیکھا ، وہ ہلکے سے مسکرائے تھے بولے..
" یہ ہے مجتبٰی کی بیٹی ذیشان مجتبٰی کی بہن رامین مجتبٰی اور ذیشان ، ذیشان تو اپنی گڑیاں کو دیکھ کر ہی وہاں بیٹھتا چلا گیا تھا۔۔ 
جس کو ہادی صاحب نے ہاتھ سے پکڑنا چاہا تھا لیکن ماضی کی گئی سنگین گناہ کی وجہ سے وہ اسکو نہیں پکڑ سکے تھے۔۔
رامین کو اُنہونے نے خود ہی بتایا تھا کہ وہ اُنکی بیٹی نہیں بلکہ مجتبٰی کی بیٹی ہے شروع شروع میں تو رامین منا کرتی رہی لیکن جب ماضی کا اُنہونے اسکو مختصر سا بتایا توں رامین نے اُنکی طرف اجنبی نظروں سے دیکھ کر ایک دم کہا تھا کہ اسکو اُسکے بھائی سے ملوایا جائے اور بسس ہادی صاحب نے ایسا ہی کیا تھا۔۔ 
اُنکے پاؤں کو فالس مار گیا تھا اور بلڈ کینسر الگ تھا۔۔ وہ اپنے کیے کی معافی مانگنا چاہتے تھے۔۔۔
اس لیے آج وہ اپنی معافی مانگ رہے تھے، اور انکو معاف بھی کے دیا گیا تھا۔۔
بڑا وہ نہیں ہوتا جو غلطی کر کے اپنا روپ زمائے بلکہ بڑا وہ ہوتا ہے جو ظلم سہ کر بھی معاف کر دیں" 
اور سب کچھ اللہ کے سپرد کر دیں۔۔
اب وہ بہت خوش تھا اپنی بہن کے ساتھ ایک نئی زندگی خوشی خوشی گزار رہا تھا۔۔۔
"بھائی کن خیالوں میں گم ہو گئے آپ رامین نے اسکو چٹکی کاٹتے پوچھا ..
آں ں ں !!! وہ چلّایا اور پھر بولا کیا جنگلی چڑیل ...
کچھ نہیں !! وہ منہ پھلا کر بیٹھ گئی تھی۔۔
اچھا سوری اب بتاؤ کیا؟؟ وہ کان پکڑے معافی مانگتا بولا۔۔
"شادی کر لو آپ وہ ایک دم چہک کر بولی تھی 
"نہیں !! ایک لفظی جواب آیا ،
"کیوں ؟؟ پوچھا گیا۔۔
"اب میں اپنی زندگی میں کسی اور کو شامل نہیں کے سکتا ، بتایا گیا ۔۔۔۔
" میں جانتی ہوں بھائی کہ آپ نہیں بھلا سکتے کیونکہ وہ ہے ہی اتنی پیاری میں نے تو ساری زندگی اُسکے ساتھ گذاری ہے۔
"لیکن بھائی !  زندگی اکیلے نہیں گذاری جا سکتی اپنی خاطر ہی نہیں آپ اس درد کو بخوبی جانتے ہیں اس لیے اپنے لیے نہ سہی اس درد کے درد کو سمجھ کر اس سے شادی کر لو ، بہت محبّت کرتی ہے عالیہ آپسے ، وہ بول کر خاموش ہوئی تھی اپنے بھائی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
وہ کچھ لمحہ تک خاموش رہا اور آنکھوں کو موند لیں اور بولا ۔۔۔
"ٹھیک ہے !!! لیکن صرف تیرے لیے میں اسکو وہ محبّت نہیں دے سکتا " لیکن ہاں عزت عزت میں ضرور دوں گا ۔۔۔۔
بسس وہ خوش ہو گئی تھی۔۔۔
رامین نے ایک زور دار سٹی بھائی تھی۔۔
ٹریس پر سے ایک وجود نکلا تھا۔۔
سفید اور گلابی سوٹ پہنے سر پر حجاب لیے وہ بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔
"اوۓ ہوئے میری بھائی کی شادی ہے آج نہیں نہیں !! 
ایک دو دن میں میرے بھائی کی شادی ہے میں روح خوب ناچوں گی گاؤں گی ڈھول نگاڑے بجاوں گی۔۔
اُسکے اس ٹانگ توڑتے گانے پر وہ تینوں ہی ہنس دیے تھے۔۔۔۔۔
***********************
آج zm ذیشان مجتبٰی کا نکاح تھا پورا ہال مہمانوں سے بھرا پڑا تھا ، جو ذیشان کبھی منہال کا دشمن ہوا کرتا تھا آج وہیں ایک دوست کی احسیت سے اُسکے نکاح میں شریک ہو رہا تھا۔۔۔
سب ہی بیٹھے خوش گپیوں میں بزی تھے۔۔
مائشا عالیہ کے پاس تھی پانچ سالہ ریحام علینہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا جبکہ مدیحہ کی بیٹی کو رامین نے پکڑا ہوا تھا مائمہ مائشا کی بیٹی کبھی ادھر تو کبھی اُدھر اسٹیج پر چکّر کاٹ رہی تھی۔۔
منہال ، صرفان شہزین اور عالیان یہ تینوں بیٹھے اُن سب کو دیکھ رہے تھے جو آج انکو گھاس ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔ اور انکو یوں بیٹھے دیکھ کر نورالعین بیگم ،مہرین بیگم اور عائشہ کے کہکے ہے اختیار تھے۔۔۔۔
وہ سب منہ بصور کر بیٹھ گئے تھے۔۔ 
"منہال !! کسی نے اسکو پیچھے سے آواز دی تھی 
سب نے ایک ساتھ مڑ کر دیکھا ،جیا ہادی کھڑی تھی وہاں منہال کے ماتھے پر ایک دم کئی ساری سلوٹے پڑی تھی ، ناگواری چہرے سے عیاں تھی ۔۔
وہ اٹھ کے جانے لگا تھا جب وہ ایک دم اُسکی طرف بڑھی تھی۔۔
" مجھے معاف کر دو ہاتھ جوڑ کر اتنے آدمیوں میں وہ معافی مانگ رہی تھی ، منہال نے اسکو دیکھا وہ تو وہ نک سک سے تیار رہنے والی جیا ہادی نہیں تھی ۔۔ 
یہ تو کوئی اور ہی تھی۔" جس طرح میں تمہیں رسوا کر کے گئی تھی ایسی ہی بھری محفل میں، آج میں ایسے ہی سب کے سامنے تُم سے معافی مانگتی ہوں مائشا نے یوں شل کھڑے منہال کے پاس آ کر کندھا دبایا ، اور آنکھوں سے اشارہ کیا تھا ، منہال نے اپنی زندگی کی طرف دیکھا اور اُسکا ہاتھ تھام کر جیا کی طرف دیکھتا بولا۔۔
" جیا ہادی میں نے آج تمہیں اللہ کے واسطے سے معاف کیا اپنے بچوں کی خیر سے معاف کیا اور وہ بول کر وہ اسٹیج کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
جیا نے اُن سب کی طرف دیکھا اور پھر آسمان کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔
اللہ آج تُو بھی مجھے معاف کر دیں آمین 
وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔۔
مائشا نہیں جانتی تھی منہال کا ماضی نہ وہ جاننا چاہتی تھی ، اُسکے لیے ماضی کوئی معائنے نہیں رکھتا اُسکے لیے آج اور کل معائنے  رکھتا ہے ۔۔۔ 
سب اسٹیج پر کھڑے تھے ایک فیملی فوٹو بنوانے کے لئے ، سب خوش تھے ایک دوسرے کی خوشی میں اور خوشیاں اُن سب کو دیکھ کر خوش تھی 
آسمانوں میں بھی خوشیوں کا ایک سماں تھا
زندگی میں غم اور خوشی آتی ضرور ہے، بس فرق اتنا ہے کہ کون اسکو کیسے لیتا ہے وہ انسان پر مہنسر کرتا ہے۔۔۔۔۔
"زندگی ہنستی مسکراتی رہے 
غم ہو جہاں وہاں خوشیاں بانٹتے رہے
زندگی کے اصول ہی یہ ہے
جو ہوا اس سے کچھ سیکھو 
اور جو ہے اُس پر شکر ادا کرو "
مجیبہ چودھری 
************************************
                              ختم شد

So guy's... 
Kaisa lga novel aaj yeh novel apne ikhtitaam ko pohncha ab aap sab btaye piyare piyre lfzon mein reviews dein...
Jiyadah se jiyadh share kro comments share & stickers 👍👍👍👍👍
Lzmi kro....
Inshallah milte next novel mein is novel ka next part " tere sang bahr e mosam session 2 (kabhi rog na lgana piyar ka ) prhna zroor so miltey tere sang bahr e mosam mein rehmat aur rehaan ke saath 😂💖💖
Duaaon mein yaad rakhna....


   4
0 Comments